نماز تسبیح کا آسان طریقہ۔Islamic infro

 نماز تسبیح وہ نفل نماز ہے جس کی فضیلت باقی نفل نمازوں سے کہی زیادہ ہے اور نماز تسبیح کو ایک خاص فضیلت حاصل ہے۔ 

عنوان

۔نماز تسبیح کا طریقہ۔

۔صلٰوة التسبیح کی فضیلت،

صلوٰةالتسبیح کی نیت

مسٸلہ: نماز تسبیح کے لٸے کونسی سورتیں پڑھنی چاہیے؟

۔نماز میں تسبیحات کو یاد کرنے کا طریقہ،

نماز تسبیح کب اور کس وقت ادا کی جاۓ؟

۔مسٸلہ۔ صلوٰة تسبیح میں جماعت کرنا کیسا ہے؟

نماز تسبیح کا طریقہ
نماز تسبیح کا حکم

 

نماز تسبیح کا طریقہ۔

صلوٰةالتسبیح اس طرح پڑھے کہ الحمد شریف اور سورۃ پڑھ نے کے بعد کھڑے ہی کھڑے رکوع سے پہلے (تیسرا کلمہ) سُبحَانَ اللّٰہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلَہٰ اِلَا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکبَرُ پندرہ مرتبہ کہو،پھر رکوع کرو تو رکوع میں ان کلمات کو دس مرتبہ کہو، 

 پھر رکوع سے کھڑے ہو کر (قومہ) میں دس مرتبہ کہو،پھر سجدہ میں جاکر  کر دس مرتبہ کہو، پھر سجدے سے سر اٹھا کر (دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر )دس مرتبہ کھو، پر سجدے سے اٹھ کر بیٹھ جاؤ اور دس مرتبہ کہو اسی طرح چار رکعتیں پڑھ لوں،یہ ہر رکعت میں 75 مرتبہ ہوئے۔( اور چاروں رکعتوں میں ملا کر 300 ہوٸے۔)

 

صلٰوة التسبیح کی فضیلت،

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب ؓ سے فرمایا کہ  عباس رضی اللہ تعالی عنہ اے چچا جان کیا میں آپ کو ایک عطیہ دو کیا میں آپ کو بخشش کرو؟  کیا میں آپ کو بہت مفید چیز سے باخبر کروں؟

کیا میں آپ کو ایسی چیز دوں کہ جب تم اس سے  کر لو گے تو اللہ تعالی تمہارے سب گناہ پہلے اور پچھلے پرانے اور نٸے خطا کٸے ہوئے اور جان کر کٸے ہوئے، چھوٹے اور بڑے چھپ کر کٸے ہوئے اور ظاہر کٸے ہوئے سب معاف فرما دے گا وہ کام یہ ہے کہ چار رکعت نماز تسبیح ادا کرو۔

See also  آذان دینے کا آسان طریقہ

اور  مزید رسول اللہ کریمﷺ نے فرمایا اے چچا جان   اگر ہو سکے تو روزانہ ایک مرتبہ اس نماز کو پڑھ لیا کرو یہ نہ کرو تو جمعہ میں یعنی ہفتے بھر میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو یہ بھی نہ کروں تو مہینے میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو اگر یہ بھی نہ کرو تو ہر سال میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو یہ بھی نہ کرو تو عمر میں ایک مرتبہ تو پڑھ ہی لو۔

 حضرت عبداللہ بن عباس سے یہ نماز ہر جمعہ کو پڑھا کرتے تھے، اور ابو الجوار رضی اللہ تعالی عنہ تابعی ؓ روزانہ ظہر کی اذان ہوتے ہی مسجد میں آ جاتے تھے۔

اور جماعت کھڑے ہونے تک پڑھ لیا کرتے تھے، حضرت عبدالعزیز بن ابی رداد ؓ فرماتے تھے کہ جسے جنت درکار ہو،

 اسے چاہیے کہ صلوة التسبیح  کو مضبوط پکڑے، ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ مصیبتوں اور غموں کو دور کرنے کے لئے نماز تسبیح جیسی بہتر چیز نہیں دیکھی۔

نماز تسبیح کی نیت:۔ 

نماز تسبیح  کی نیت اس طرح کرنی چاہیے کہ نیت کرتا ہو/یا کرتی ہو میں چار رکعت نماز نفل صلوة التسبیح کی، واسطے اللہ تعالیٰ کے، رخ میرا قبلہ کی طرف، اللہ اکبر۔

 
 

مسٸلہ: نماز تسبیح کے لٸے کونسی سورتیں پڑھنی چاہیے؟

 اس نماز کے لیے کوئی سورت مقرر نہیں ہے جو بھی صورت چاہے پڑھے لے، بعض روایتوں میں ہے کہ بیس آیتوں کے قریب قریب  پڑھے۔

 

نماز میں تسبیحات کو یاد کرنے کا طریقہ،

مسٸلہ:۔ ان تسبحیات (سُبحَانَ اللّٰہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلَہٰ اِلَا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکبَرُ )  کو زبان سے ہرگز نہ گنے، کیوں کہ زبان سے گننے سے نماز ٹوٹ جائے گی، انگلیاں جس جکھ رکھی ہوں ان کو وہیں رکھے رکھے اسی جگہ دباتے رہے،

مسٸلہ:۔  اگر کسی جگہ پڑھنا بھول جائے تو دوسرے رکن میں اس کو پورا کر لے، البتہ بھولی ہوٸی تسبیحات کی قضإ رکوع سے کھڑے ہوکر  اور دونوں سجدوں  کے درمیان نہ کرے،

 اسی طرح پہلی اور تیسری رکعت کے بعد جب بیٹھے تو اس میں بھی بھولی ہوئی تسبیحات کی قضا نہ کرے (بلکہ ان کی تسبیحات دس مرتبہ پڑھ لے) اور ان کے بعد جو رکن ہو اس  میں بھولی ہوئی تسبیحات دا کرے۔

See also  Namaz ki Fazilat-namaz timing karachi -namaz timing in karachi 2022-

نماز تسبیح کب اور کس وقت ادا کی جاۓ؟

 نماز تسبیح ہر وقت ہو سکتی ہے سوائے ان کے جن میں نفل پڑھنا مکروہ ہے بہتر یہ ہے کہ اس نماز کو زوال کے بعد ظھر سے پہلے پڑھ لیا کرے،

 جیسا کہ ایک حدیث میں بعد زوال کے الفاظ آئے ہیں اور بعد زوال موقع نہ ملے تو جس وقت چاہے پڑھ لے۔

صلوٰة تسبیح میں جماعت کرنا کیسا ہے؟

نماز تسبیح میں بولا کر  ساتھ نفل کی جماعت کرانا مکروہ ہے اور بلا تداعی نفل کی جماعت کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں،

 کیونکہ جماعت نفل کے بارے میں ہمارے ائمہ کرام رضوان الله تعالی علیهم اجمعین کا مذہب معلوم و مشہور اور عامه کتب مذہب میں مذکور و مسطور یہ هے کہ بلا تداعی مضائقہ نہیں،

 اور تداعی کے ساتھ مکروه ہے اور بلا تداعی مضائقہ نہیں (تداعی ایک دوسرے کو بلانا، جمع کرنا) اس لیے کہ اس سے کثرت جماعت لازم آتی ہے،

 اور ائمہ کرام نے اسے مکروه کہا ہے اسی طرح غنیه شرح منیه میں ہے “واعلم ان النفل بالجماعة علی سبیل التداعی مکروه علی ما تقدم ماعد التراویح و صلاة الکسوف والاستسقاء” غنیة شرح منیه، ص-٤٣٢ 

اسی طرح درمختار میں ہے *”لا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعة خارج رمضان ای یکره ذلک علی سبیل التداعی بان یقتدی اربعة بواحد کما فی الدرر، ولا خلاف فی صحة الاقتداء اذ لا مانع در مختار، جلد-٢، ص-٤٨-٤٩ 

اس عبارت سے واضح ہو گیا کہ کراہت صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی ہے نہ کہ تحریمی جو ممنوع و گناه ہو، اور خلاف اولی بلا شبه جائز میں شمار ہوتا ہے جیسا کہ شامی میں ہے

 الظاهر ان الجماعة فیه غیر مستحبة ثم ان کان ذلک احیانا کما فعل عمر کان مباحا غیر مکروه، وان کان علی سبیل المواظبة کان بدعة مکروهة لانه خلاف المتوارث” فتاوی شامی، جلد-٢، ص-٤٨،

اور اعلی حضرت رضی الله تعالی عنه فتاوی رضویه میں تحریر فرماتے ہیں کہ “اظهر یہ کہ کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی لمخالفة التوارث نہ تحریمی کہ گناه و ممنوع ہوا فتاوی رضویه، جلد-٣، ص-٤٦٤ 

See also  jumma mubarak -jumma mubarak quotes in Urdu

اور فتاوی بحر العلوم میں ہے کہ “نوافل تنہا تنہا پڑھنی چاہئے نفل جماعت کے ساتھ پڑھنی مکروه ہے امام احمد رضا خان صاحب رحمة الله علیه فرماتے ہیں کہ چار مقتدی ایک امام کے پیچھے پڑھیں تو مکروه ہے 

صرف تین آدمی ایک امام کے پیچھے ہوں تو مکروه نہیں(فتاوی رضویه، جلد-٣، ص-٤٨٠) امام احمد رضا نے مکروه ہونے کا ثبوت نو کتابوں سے دیا ہے، 

فتاوی بحر العلوم، جلد-١، ص-٤٣٤ فتاوی امجدیه میں ہے کہ نماز نفل جماعت کے ساتھ علٰی سبیل التداعی مکروہ ہے اور تداعی کے یہ معنٰی ہیں کہ تین سے زیادہ مقتدی ہوں ـ اور تین مقتدی ہوں اس میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ بھی مکروہ ہے اور ایسا ہی درمختار میں ہے ،

ولایصلی الوتر ولاالتطوع بجماعۃ خارج رمضان ای یکرہ ذالک لو علی سبیل التداعی بان یقتدی اربعۃ بواحدۃ کمافی الدرر و فی الاشباہ عن البزازیه یکرہ الاقتداءفی صلاۃ رغائب و برأۃ و قدر وھکذا

 ردالمحتار میں ہے والنفل بالجماعۃ غیر مستحب لانه لم تفعله الصحابه فی غیر رمضان ھ۱  فتاوی امجدیہ، جلد-١، ص-٢٤٣ 

انوار الفتاوی میں ہے کہ  “همارے نزدیک اس مسئله کی تفصیل اور تحقیق کچھ اس طرح ہے کہ کسی بھی نفلی عبادت کو کھلم کھلا یا تنہا ادا کرنے میں افضلیت اور کراهت کا دارومدار “ماحول” اور “زمانه” پر ہے

 نفل کی جماعت پر کراہت کا فتوی اس زمانہ اور ماحول کے اعتبار سے دیا گیا ہے جس میں حسن نیت ذوق عبادت اور جذبہ خیر کا بہت غلبه تھا،

 

 اس زمانے میں یهی افضل تھا کہ نوافل کو بلا جماعت ادا جائے تاکہ کسی کی باطنی کیفیت دوسرے پر منکشف نہ ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہا وه زمانہ اس خطره سے بھی پاک تھا کہ تنہائی میں لوگ عبادت نہیں کر پائیں گے،

 اور سستی کا شکار ہو جائیں گے جب کہ ہمارا زمانہ اس کے بلکل برعکس ہے اب نہ لوگوں میں ذوق عبادت ہے نہ جذبه خیر بلکہ محض رسما کچھ عبادت کر لی جاتی ہیں

 اندریں حالات اگر کسی موقع پر نوافل خصوصا صلوة التسبیح کی جماعت مع اعلان کا اہتمام کر لیا جاتا ہے تو اس میں شرعا کوئ قباحت اور کراہت نہیں ہے انوار الفتاوی، جلد-١، ص-٢٣٥