مناسک حج کیا ہے؟ السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ دوستوں آج ہم سیکھیں گے حج کا طریقہ کہ حج اور عمرہ کی تعریف کیا ہے؟ اور حج کے احکام و مسائل کے بارے میں۔
مناسک حج کا طریقہ اردو۔
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے اور طاقت رکھنے والے پر زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے اللہ رب العزت کا فرمان ہے جو اس کے گھر تک جانے کی استطاعت رکھے وہ اس کا حج کرے۔
مناسک حج کے اقسام اور ان کی تعریفیں۔
حج تمتع۔ یہ کہ حاجی حج کے مہینے شوال۔ذی القعدہ۔ ذی الحج) میں عمرہ کا احرام باندھے۔ عمرہ کرکے حلال ہو جائے۔ اور اسی سال کا دوبارہ احرام باندے اور قربانی کری۔
حج قران۔ یہ ہے کہ حاجی حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھے اور 10 ذی الحجہ تک احرام نہ کھو لے اور قربانی کا جانور ساتھ لے کر جائے اور سعی کرے ۔
حج افراد. یہ ہے کہ حاجی صرف حج کا احرام باندھے اور دس ذوالحجہ احرام میں ہی رہے اور قربانی نہ کرے۔
اس لئے کہ حج افراد کرنے والا قربانی نہیں دے گا اور ایک سعی کرے خواہ کے طواف قدوم کے ساتھ کیا بعد میں طواف افاضہ کے ساتھ۔
تینوں قسم کے حاجیوں کے لئے عمرہ کرنے کے مختلف مراحل
حج تمتع کرنے والا) احرام باندھے۔ طواف کرے (اسے طواف قدوم کہتے ہیں) سعی کرے بال کٹوائے اور حرام کھول کر عام کپڑے پہن لے۔
معتمر کا عمرہ ہوگیا حج کے لیے آٹھ ذی الحج کو بھر اپنے مقام سے ہی احرام باندھ کر ممکن ہو تو ظہر سے پہلے پہلے منیٰ پہنچ جائے۔
حج قران کرنے والا۔ احرام باندھے طواف کرے۔حجامت نہ بنوائے بلکہ اسی احرام میں باقی رہے ہے پھر آٹھ ذوالحجہ کو ممکن ہو تو ظہر سے پہلے پہلے منیٰ میں پہنچ جائے آئے۔
حاجی افراد کرنے والا۔ احرام باندھے۔ طواف کرے۔ چاہے تو سعی بھی کرے یا طواف افاضہ کے ساتھ سعی کرے اور آٹھ ذوالحجہ کو منی پہنچ جائے آئے۔
حج کی اہمیت
حج کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اور عظیم فریضہ الہی ہے۔قرآن مجید میں ایک مختصر عبارت فریضہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔اللہ الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔
ترجمہ۔خدا کے لئے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو شخص اس کی طاقت رکھتا ہے۔
اور اسی آیت کے نیچے فرماتا ہے کہ وہ من کفر فان اللہ غنی العالمین۔جو شخص جو خدا عالمین سے بے نیاز ہے۔یہ جملہ کہ طاقت رکھنے والوں پر واجب ہے۔
اور جو شخص حج کا انکار کردے تو کافر ہے کہ اسلام کے اندر حج کی اہمیت کو واضح کر دیتا ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کے 27 ویں آیت میں ہے۔
کہ تفسیر میں جو امام صادق علیہ السلام سے روایت مروی ہے یہ بیان کرتے ہیں کہ جو شخص حج واجب کو جان بوجھ کر تاخیر میں ڈالے یہاں تک کے موت آجائے وہ قیامت میں اندھا ہو کر اٹھایا جائے گا۔
حج اور عمرہ میں فرق۔
حج کے لغوی معنی ہیں کسی عظیم الشان چیز کے طرف قصد و ارادہ کرنا جبکہ شریعت کی اصطلاح میں مخصوص زمانے میں مخصوص افعال۔ فرض۔ واجبات طواف۔ سعی۔ وقوف عرفات اور دیگر مقامات کی زیارت کرنے کو حج کہا جاتا ہے۔
عمرہ۔ عمرہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کا لغوی معنیٰ ہے ارادہ یا زیارت کرنا شریعت کی اصطلاح میں بیت اللہ شریف کا قصد و ارادہ اور زیارت کرنے کو عمرہ کھتے ہیں۔
حل یا میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف۔ صفا مروہ کی سعی اور حلق۔ قصر کرانا ان اعمال کا مجموعہ عمرہ کھلاتا ہے۔
جس طرح حج کرنے والے کو حاجی کہنا جاتا ہے اسی طرح عمرہ کرنے والے کو معتمر کہتے ہیں۔صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار ادا کرنا فرض ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ حج سے پہلے عمرہ کر لینا چاہیے اور اس کی وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بعد میں حج کرنے میں آسانی ہوگی کیونکہ سارا طریقہ پتہ ہوگا اور حج کے مقامات بھی پہلے سے دیکھے بھالے ہوں گے اور حج کرنے میں آسانی ہوگی۔
اور بعض لوگوں کے نزدیک عمرہ حج کے ریہرسل ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں کا حقیقت اور صداقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔کیونکہ بہت زیادہ فرق ہے اور عمرہ اور الگ جگہوں پر واقع ہے۔
اور پھر عام طور پر لوگوں کو حج اور عمرہ میں واسع فرق بھی معلوم نہیں آتا اس لیے اس مضمون میں عوام الناس کی آگاہی کے لیے حج اور عمرہ میں فرق تفصیل سے بتایا جارہا ہے۔
حج و عمرہ میں فرق حج فرض ہے اور عمرہ سنت مؤکدہ ہے حج کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہے اور ایام حج میں عمرہ ادا کرنا مکروہ ہے۔ محض عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوجاتا۔
آجکل عوام الناس میں خوامخواہ یہ بات مشہور ہے کہ جس نے اگر حج سے پہلے عمرہ ادا کر لیا تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے۔
حالانکہ حج اسلام کا پانچواں رکن ہے اور پہلے سے ہی صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ حج مخصوص لباس۔ وقت اور مخصوص مقامات میں ادا کیا جاتا ہے لیکن عمرہ صرف خانہ کعبہ مکہ مکرمہ میں ادا کیا جاتا ہے۔
مناسک حج
جبکہ مناسک حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام صفا مروا کے علاوہ مکہ مکرمہ سے باہر وادی۔ منیٰ۔ عرفات۔ اور مزدلفہ میں بھی جانا ہوتا ہے۔
عمرہ 9 ذوالحج سے لیکر 13 ذی الحجۃ کے علاوہ پورے سال میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے صاحب استطاعت کو زندگی میں ایک دفعہ ضرور عمرہ کر لینا چاہیے۔
پاکستان سے جاکر جو پہلا عمرہ کیا جاتا ہے وہ آپ کا اپنا اور واجب عمرہ ہوتا ہے اسی طرح مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ میں عمرہ کیا جاتا ہے وہ بھی واجب عمرہ ہوتا ہے۔
مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران جو عمرہ ادا کیا جاتا ہے وہ نفلی عمرہ کھلاتا ہے۔ نفلی عمرہ زندہ اور فوت شدہ عزیزوں کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے۔
حج اور عمرہ میں یہ فرق ہے عمرہ کو حج اصغر یعنی چھوٹا حج بھی کہتے ہیں اور حج کو حج اکبر یعنی بڑا حج کہا جاتا ہے۔حج کی میقات حرم یا مکہ مکرمہ میں جبکہ عمرہ کی میقات حل ہے۔
حج کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہے اور عمرہ کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے۔حج کے دن 9 ذوالحج سے لے کر 12ذوالحج تک ہوتے ہیں اور عمرہ 9 ذوالحج لے کر 13 ذوالحج تک کرنا مکروہ ہے۔
عمرہ کے مناسک
عمرہ کے مناسک حرم شریف خانہ کعبہ میں ادا کیے جاتے ہیں۔ حج کے مناسک خانہ کعبہ کے علاوہ منی عرفات مزدلفہ میں ادا کیے جاتے ہیں۔
حج کے تین فرض اور چھ واجب ہیں جبکہ عمر کے دو فرض اور دو واجب ہیں۔حج میں تلبیہ یعنی لبیک 8 ذوالحج کو احرام باندھنے احرام کے نفل پڑھنے اور حج کی نیت کرنے کے بعد پکارنا شروع کی جاتی ہے۔
اور دس ذوالحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی کرنے سے قبل پکارنا بند کی جاتی ہے جبکہ عمرہ میں تلبیہ لبیک احرام باندھنے احرام کے نفل پڑھنے اور عمرہ کی نیت کرنے کے بعد پکارنا شروع کی جاتی ہے۔
اور طواف بیت اللہ دی جاتی ہے حج شروع کرنے سے پہلے پکارنا بند کر 9 ذوالحج کا احرام۔احرام باندھنے ۔احرام کے نفل پڑھنے اور حج کی نیت کرنے کے بعد قیام میں منیٰ۔ وقوف عرفات۔ اور وقوف مزدلفہ۔ رمی ۔جمرہ عقبی۔قربانی اور حلق قصر کے بعد کھولا جاتا ہے۔