واقعہ کربلا تفصیل اردو
واقعہ کربلا کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عمارالدہنی نے بیان کیا کہ میں نے کربلا کے شھنشاہ امام حسین کے پوتے ابو جعفر محمد باقر کی خدمت میں عرض کی کہ آپ واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین کا نقشہ میرے سامنے اس طرح کھینچے گویا میں خود کربلا کے میدان میں موجود تھا۔
امام جعفر نے فرمایا کہ واقعہ کربلا سے پہلے امام حسین علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ ہوتا ہے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ کے جانب ہجرت کرتے ہیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ فوت ہو گئے مدینے کا والی اس وقت ولید بن عتبہ بن ابوسفیان امیر معاویہ اور یزید کا رشتہ چچا زاد بھائی تھا اس نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف بیعت لینے کی غرض سے قاصد بھیجا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا مجھے سوچنے کی مہلت دو جلدی نہ کرو ولید نے ان کو مہلت دے دی، اسی اثنا میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ تشریف لے آئے۔
واقعہ کربلا کے اسباب
جب امام حسین علیہ السلام کی آمد کی خبر کوفہ والوں کو معلوم ہوئی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ پاک تشریف لائے ہیں۔
تو وہ فوراً امام حسین علیہ السلام کے پاس قاصد بیجنا شروع کیے۔ ہم نے آپ کی خاطر ہ اپنے آپ کو بھی عید سے روک رکھا ہے ہمیں یزید کے والی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ہیں ۔آپ ہمارے پاس تشریف لے آئے، کوفہ کہ والی اس وقت نعمان بن بشیر انصاری تھے۔
اس اثنا میں کوفے والوں کے اور پیغام آئے تو آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا۔ یہ بات طے ہوئی کی پہلی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا جائے وہ جاکر وہاں کے حالات لکھیں ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل بن ابی طالب سے فرمایا کہ۔ تم کوفہ جاؤ اور حالات کا جائزہ لوں اگر ان کے بیانات سچے ہیں تو ہم کوفہ جائیں گے۔
حضرت مسلم بن عقیل یہ بات سن کر اپنے دو معصوم بچوں محمد اور ابراہیم کو بھی ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔
جب امام مسلم نے کوفہ کی سرزمین پر قدم رکھا تو اہل کوفہ نے شاندار استقبال کیا اور صرف ایک ہی دن میں چالیس ہزار آدمی بیت میں داخل ہوں گے کوفہ کے گورنر نعمان بشیر نے بھی کوئی تعرض نہیں کیا۔ کوفہ والوں کی یہ محبت دے کر مسلم نے حضرت امام حسین کو خط لکھا کہ آپ بالکل ٹھیک ہے۔
ادھر جب یزید کو یہ صورتحال کا علم ہوا کے تمام اہل کوفہ نے امام حسین کی بیعت قبول کرلی ہے اور ان کے نمائندے مسلم ایک طرح سے کوفہ کے والے ہوگئے ہیں۔
اور گورنر نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اس نے بصرہ کے گورنر ابن زیاد کو فورا روانہ کیا اور نعمان بن بشیر کو معزول کر دیا۔
ابن زیاد بڑا مکار اور چالاک آدمی تھا وہ سمجھتا تھا جب میں کوفہ پہنچوں گا تو اہلیان کوفہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے انتظار میں ہوں گے۔
اس لئے وہ ایک قافلے کی شکل میں اسی راستے سے آیا جو مکہ مکرمہ سے آتا تھا ابن زیاد شام کے وقت شہر میں داخل ہوا اور اس نے اپنا منہ چھپا رکھا تھا۔
لوگوں نے سمجھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام تشریف لے آئے ہیں اور بلا تامل خوشی سے نعرے لگاتے ہوئے ابن زیاد کے ساتھ ہو لئے خوشی میں کسی نے نہیں دیکھا کہ ہم کس کے نعرے لگا رہے ہیں۔
ابن زیاد تیزی سے قلعہ کے دروازے پر پہنچا اور اندر داخل ہوگیا اور دیوار پر کھڑے ہو کر چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔
کوفہ والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اعلان کیا ک کوفے والوں تم نے مسلم بن عقیل کی بیعت کرکے ہمارے غضب کو دعوت دی ہے۔
صبح طلوع فجر تک تمہارے گھر ? چلا دیئے جائیں گے تمہارے گردنوں پر ہماری تلواریں نظر آئیں گی۔
بھتر یہی ہے کہ طلوع فجر سے پہلے پہلے مسلم بن عقیل کے بیعت توڑ دو،ورنہ تمہاری جان مال اور اولاد کوئی چیز بھی مجھ سے بچ نہیں سکے گی۔
کوفہ والے ابن زیاد کی دھمکیوں میں آگئے ان کے جسم تھر تھر کانپنے لگے سیکڑوں کوفیوں نے بیعت توڑنے کا اعلان کر دیا۔اور باقی تقریبا ہی متذبذب ہوگئے ۔رات گزر گئی۔
مصائب حضرت مسلم
مصائب حضرت مسلم کے حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ حضرت مسلم بن عقیل عروہ کے گھر پہنچے اور اس کو کہا کہ اہل کوفہ نے میرے ساتھ بدعہدی کی ہے اور دھڑا دھڑ بعیت توڑ رہے ہیں۔
ادھر ابن زیاد نے چالیس معززین کو قلعہ ?? میں بلا کر گرفتارکرلیا،جب ابن زیاد کو علم ہوا کہ امام مسلم ہانی کے گھر ?? میں موجود ہیں۔
تو اس نے ہانی کو بلا کر کہا کہ تم نے میرے دشمن کو پناہ دی ہے اگر مجھے تیری درینہ دوستی کا پاس نہ ہوتا تو ابھی تمہاری گردن اڑا دیتا۔
حضرت ہانی نے کہا کہ دوستی کا پاس کرتا ہے رسول کریم صلی وسلم کی نسبت کا کوئی احساس نہیں! آخر اس ظالم نے ہانی کو شہید کروادیا۔
حضرت مسلم بن عقیل کو علم ہوا تو آپ ہانی کے گھر سے باہر نکلے۔ دیکھا تو ابن زیاد کی فوج نے مکان کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔
آپ اپنے دونوں بچوں کو قاضی شریح کے سپرد کر آئے تھے، محمدی کچھار کے شیر نے ایک ہی حملے سے تمام فوج کو بھگا دیا امام مسلم کو گرفتار نہ کر سکے۔
اس نے فورا مزید فوج بھیج دی مگر اتنی دیر میں کچھ کوفہ والے بھی حضرت مسلم بن عقیل کے ساتھ مل چکے تھے آپ کے جوھر تلوار دے کر کوفہ والوں کی ڈھارس بندھ گئی ۔
لوگ ایک بار پھر حضرت مسلم کے ساتھ مل چکے تھے بڑھتے بڑھتے یہ تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی آپ نے اس لشکر کو ساتھ لے کر قلعہ کا ? محاصرہ کر لیا۔
ابن زیاد گھبرا گیا۔اب اس نے یہ چال چلی کے چالیس معززین جن کو اس نے دھوکے سے گرفتار کر لیا تھا ان کو کہا تم قلعہ کہ دیوار پر کھڑے ہو کر اپنے اپنے قبیلے اور اس کے رشتے اداروں کو کہو کہ واپس چلے جائیں۔
ورنہ قلعہ پر حملے سے پہلے ہمارے سر جسم سے الگ کر دیئے جائیں گے اس کی یہ تجویز کار گر ثابت ہوئی ان چالیس آدمیوں نے قلعہ ? پر چڑھ کر گڑگڑا کر منتیں کیں کہ اگر تم واپس نہیں گئے۔
تو ہم قتل کر دیے جائیں گے بد عھد کوفیوں نے واپس جانا شروع کر دیا اور مغرب تک ایک آدمی بھی ساتھ نہ تھا ۔
امام مسلم نے طوعہ نامی عورت کے ہاں پناہ حاصل کی ادھر ابن زیاد نے اعلان کیا کہ مسلم کو پناہ دینے والا بھی قتل کر دیا جائے گا اس کو پناہ نہ دے آج ہر کوئی اپنا دروازہ بند کر رکھا تھا کہیں مسلم میرے گھر نہ جائیں۔ کل یہی کوفہ والے سعادت سمجھتے تھے آج وہ ہی خون کہ پیاسے نظر آرہیں ہیں۔
شہادت مسلم بن عقیل
شہادت مسلم بن عقیل کا داستان کچھ اس طرح ہے کہ طوعہ کے بیٹے ملعون نے جا کر ابن زیاد کو خبر دی کہ حضرت مسلم بن عقیل ہمارے گھر میں موجود ہیں۔
حضرت مسلم بن عقیل کو گرفتار کرنے کےلئے ابن زیاد نہ اپنے سپاہیوں کو طوعہ کہ گھر بیجھا۔
حضرت مسلم بن عقیل کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ میں نے جو خط حضرت امام حسین علیہ السلام کو بیجھا تھا وہ تو روانہ ہوچکے ہوں گے؟
اس فکر میں آپ طوعہ کہ گھر سے باہر نکلے تھے کہ ظالم ابن زیاد کے سپاہیوں نے آپ پر حملہ کردیا جس سے آپ شدید زخمی ہوئے اور ظالموں نے حضرت مسلم بن عقیل کو گرفتار کر کے ابن زیاد کہ پاس لے آئے ۔
حضرت مسلم بن عقیل اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو شروع ہوئے۔
ابن زیاد ۔ تم لوگوں میں تفرقہ ڈالنے آئے ہو؟
حضرت مسلم بن عقیل: نہیں:’ہم عدل و انصاف پر قائم کرنے اور کتاب و سنت کی دعوت دینے آئے ہیں۔
ابن زیاد: کہاں تم اور کہا کتاب و سنت ؟
حضرت مسلم بن عقیل: کتاب و سنت لوگوں کو ہمارے گھر سے ملا ہے۔
ابن زیاد: میں آپ کو اس طرح قتل کرونگا کہ اسلام میں اس طرح کس کو بھی قتل نہیں کیا گیا۔
حضرت مسلم بن عقیل: بیشک خباثت اور کمینگی میں تمہارا کوئی مقابلہ نہیں۔
آپ کا جرات مندانہ جواب سن کر ملعون ابن زیاد نے اپنے سپاہیوں کو قتل کرنے حکم جاری کردیا آپ نے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے شھادت پائی۔
مسلم بن عقیل کے بچوں کی داستان
محمد ابراہیم رضی اللہ عنہ محمد دونوں معصوم بچے قاضی شریح کے گھر ان تمام واقعات سے بےخبر موجود تھے۔
جب ابن زیاد امام مسلم بن عقیل کے قتل عام سے فارغ ہو چکا تو اعلان کروایا کہ جو مسلم کے معصوم بچوں کو جو کوفہ میں روپوش ہیں پیش کرے گا۔ بے بناہ انعام پائے گا۔
قاضی شریح یہ علان سن کر بہت پریشان ہوا۔ بچے یہ حالات دیکھ کر گھبرا گئے اور قاضی شریح سے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟
کہیں ہم یتیم تو نہیں ہوگئے؟ کیا کوفے میں ہمارا کوئی نہیں رہا؟ کیا والد ہمیں بے سہارا چھوڑ کر چلے گئے؟
قاضی شریح نے دونوں بچوں کو سینے سے لگایا اور کہا یہ وقت رونے کا نہیں ہے۔ ابن زیاد کی سپائی تمہاری تلاش کر رہے ہیں؟
کہیں تمہاری آواز سن کر ادھر نہ آ نکلیں ۔ صبح قافلہ دروازہ اراقین سے مدینہ منورا جا رہا ہے اس کے ساتھ تمیں کر دیتا ہوں اللہ کو منظور ہوا تو مدینہ طیبہ پنھچ جاؤ گے۔
قاضی شریح نے اپنے بیٹے اسد کو کہا ان دونو صاحبزادوں کو بے حفاظت قافلہ کے ساتھ ملا آو۔
اسد دروازہ اراقین پر آیا تو دیکھا کہ قافلہ جا چکا تھا دور گرد نظر آرہی تھی اسد نے کہا جلدی کرو, دوڑ کر قافلے سے مل جاؤ دونوں بچے دوڑے مگر قافلہ دور نکل گیا۔
بھوکے پیاسے بھاگے چلے جارہے ہیں پھول سی نازک کلیاں رنگین ہو گئے، تمام دن رات دوڑتے رہے رات ہوگئی،
بڑے نے چھوٹے بھائی سے کہا رات کہیں سو جائیں مگر چھوٹا بولا! بھائی جان ! کہیں سپاہی نہ گرفتار کرلیں ابھی ہم کوفہ سے زیادہ دور نہیں آئے ہیں ہمیں رات میں بھی سفر جاری رکھنا چاہیے۔
رات کی سیاہی گہری ہوتی چلی گئی پتہ ہلتا ہے تو ڈر جاتے ہیں۔ جنگل بیابانوں طے کرتے چلے گئے۔ اور صبح ہونے کو تھی۔ تو کہنے لگے کہ ہم یقین کوفہ سے کہیں دور نکل آئے ہوں گے مگر پیچھے دیکھا کہ کوفہ کے مکانات سامنے تھے چھوٹے بھائی نے کہا بھیا راستہ بھول گئے ہیں۔
بھوک اور پیاس کی شدت سے لال ہو گئے تھے پھول پھول مرجھا رہے تھے کہیں چھپنے کا ارادہ کر رہی تھے کہ ایک ظالم سپاہی نے پکڑ لیا دونوں لال ابن زیاد کے دربار میں سہمے کھڑے ہیں۔
ابن زیاد نے حکم دیا کہ انہیں جیل خانے بھجوا دیا جائے اور کھانے پینے کو کچھ نہ دیا جائے۔ جیل کا داروغہ نہایت نیک انسان تھا۔
اسی رات کو کھانا کھلا کر کی راہ قدسیہ کی طرف لے گیا اور اپنی انگوٹھی دے کر کہا سیدھے قادسیہ چلے جاؤ وہاں میرا بھائی نیک ہیں اسے یہ انگوٹھی دیکر سارا ماجرہ سناؤں تمہیں کسی طریقے سے مدینہ تک پہنچا دے گا۔
بچے تمام رات دوڑتے رہے صبح ہوئی تو پھر کوفہ کے بازار نظر آرہے تھے پاؤں میں چھالے پڑ گئے مظلومیت کی انتہائی ہے، دشمن کا ملک ہے، ذرا ذرا خون کا پیاسا ہے کوئی سہارا نہیں۔
مسلم بن عقیل کے بچوں کی شہادت
پیاس بجھانے کے لیے ایک تالاب کے کنارے گئے ایک عورت پانی لینے کے لیے آرہی تھی اس عورت نے دونوں بچوں کو دیکھ کر پوچھا کہ تم کون ہو؟
بچوں نے کہا کہ ہم مسلم بن عقیل کے بیٹے ہیں یہاں ہمارا کوئی نہیں ہے ہم ہاتھ باندھ کر عرض کرتے ہیں کہ ہمیں مت مارنا ہم بے قصور ہیں۔
عورت کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بولی صاحبزادو! مت گھبراؤ میں جس کی کنیز ہوں وہ ایک محب اہل بیت ہیں۔ چلو میں تمہیں ساتھ لے چلتی ہوں وہ تمہاری خدمت کریں گی۔
اور دونوں کو ساتھ لے کر ملکہ کے پاس آئی اور کہا جنت کے دو پھول لائی ہو۔یہ امام مسلم کے نور نظر ہیں۔
اس عورت نے دونوں بچوں کو گود میں لے کر پیار کیا کھانا کھلایا اور مکان کے پچھلے حصے میں سلا دیا اور کنیز کو تاکید کردی۔
کہ یہ راز میرے خاوند سے پوشیدہ رکھنا وہ تو انہی کی تلاش کر رہا ہے دنیا کی دولت کے لالچ نے اس کی آنکھوں میں دھول جھونک دی ہے۔
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اس عورت کا خاوند گھوڑے سے اترا اور اپنی بیوی سے کہا جلدی کرو کھانا کھلاؤ میں چاہتا ہوں کہ مسلم کے بچوں کو جلدی گرفتار کر سکوں۔
ہم انعامات سے مالا مال کر دیے جائیں گے اتنی دولت ملے گی کے تم سنبھل نہ سکو گے۔عورت نہ کہا میں اسی دولت پر لعنت بھیجتی ہو۔ اے ظالم ان بچوں کو قتل کر کے کیا کرو گے حشر میں خدا کی بارگاہ میں کون سا منہ لے کر جاؤ گے؟
حارث نے کہا میں ایسی نصحیت نہیں سننا چاہتا اگر کھانا تیار ہے تو لاؤں ورنہ جا رہا ہوں مکان کے اندر دونوں بچے خواب میں اپنے والد کو دیکھتے ہے۔
چیخے مار کر اپنےوالد سے چمٹ جاتے ہیں، ان کی آواز حارث کے کان میں پہونچتی ہے اور اپنی عورت سے پوچھتا ہے کہ یہ کون رو رہا ہے ہمارے گھر میں کون ہے؟
عورت نے کہا کہ کہیں پڑوس سے آواز آرہی ہوگی، ظالم نے بڑھ کر دروازہ کھولا تو دونوں بچے ایک دوسرے سے لپٹ کر رو رہے تھے۔ ظالم نے دونوں کو سر کے بالوں سے پکڑا اور کھینچتا ہوا باہر لے آیا۔
عورت نے چھڑانے کی کوشش کی مگر اس نے تلوار مار کر بیوی کو زخمی کردیا اور کہا خبردار اپنی جان کی خیر چاہتے ہو تو خاموش رہو۔
بیوی نے خاوند کے قدموں پر سر رکھ کر کہا اے ظالم! ان بچوں کو کیو قتل کرنا چاہتے ہو ہم قیامت کے دن مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔
ظالم نے اپنی بیوی کی اس آہ زاری کی کوئی پروا نہیں کی دونوں بچوں کو زمین پر گرا کر مارنا شروع دیتا ہے۔
بچوں کو مارتا ہوا دریا کے کنارے لے گیا دریا کے کنارے پہنچ کر دونوں بچوں نے کہا تجھے اگر مال کی ضرورت ہے تو ہمیں بھیج دے کوئی نہ کوئی خرید لے گا۔
اور اگر یہ منظور نہیں تو ابن زیاد کے پاس لے چلو وہ جو چاہے گا سو کریگا۔ اور اس نے کہا کہ اگر میں تمہیں بھیج دوں۔
تو مجھے اتنی رقم وصول نہیں ہوگی جتنی ابن زیاد سے مجھے ملے گا یہی قتل کروں گا ہو سکتا ہے دربار میں تمہیں کوئی اور چھڑا لے۔
ظالم نے ظلم کی تلوار اٹھائی تو چھوٹا بچہ آگے بڑھا قاتل پھلے مجھے قتل کر بڑے نے کہا نہیں نہیں میں اپنے چھوٹے بھائی کے تڑپتا ہوا لاشہ نہیں دیکھ سکتا پہلے مجھے قتل کر۔حارث نے کہا کہ تمہیں قتل ہونے کا شوق ہے۔
مسلم بن عقیل کے بیٹوں کی شہادت کچھ اس طرح ہوتی ہیکہ دونوں بچے سجدے میں گر جاتے ہیں۔ حارث نے کہا کیا تمہارا سجدہ تمہیں میری تلوار سے بچا لے گا۔
آخر دونوں بچے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں ان للہ وانا الیہ راجعون ان دونوں بچوں کے جسموں کو دریا میں پھینک دیا تو جسم آپس میں مل گئے ۔
حارث سروں کو لے کر ابن زیاد کے دربار میں پہنچا ابن زیاد نے کہا: تو نے بہت برا کیا یزید نے بچے طلب کرلیے تو کیا ہوگا؟
ابن زیاد نے کہا کون ہے جو حارث کو ایسی جگہ لے جا کر قتل کرے جہاں اس نے بچوں کو قتل کیا ہے چنانچہ وہاں لے جا کر اس قتل کر دیا گیا۔
نتیجہ
اس پوسٹ میں ہم نے صرف ابتداء کربلا اور (مسلم بن عقیل کی شہادت اور حضرت مسلم بن عقیل کے بچوں کی شہادت ) کے واقعات کا ذکر کیا ہے باقی واقعہ کربلا کی تفصیل دوسری پوسٹ میں آپ پڑھ سکتے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا۔