قوم ثمود پر اللہ کا عذاب کیسے آیا؟
قوم ثمود کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کو اللہ تعالی نے نبی بنا کر قوم ثمود کے طرف بیھجا۔
اور جب حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو دیکھا تو وہ بتوں کی عبادت کر رہے تھے
Qaum e samood |
آپ نے ان کو منع فرمایا لیکن قوم نہ مانی۔اور آپس میں مشھورا کرکے حضرت صالح علیہ السلام سے کھنے لگے۔
قوم ثمود پر اللہ تعالی کا عذاب:
ایک مرتبہ اونٹنی اپنے بچے کے ساتھ جا رھی تھی کہ قوم ثمود کے ایک شخص نے اس اونٹنی کو قتل کیا اس پر حضرت صالح علیہ السلام کو غصہ آیا اور آپنے فرمایا کہ بیشک آپنے اللہ تعالی کے عذاب کو خود دعوت دی ہے۔
اس کے بعد آسمان سے ایک ایسی خطرناک آواز آئی کہ اس آواز نے قوم ثمود کو ھلاک و برباد کیا اور اس طرح قوم ثمود کا نام و نشاں مٹ گیا۔
نتیجہ:
یہ قوم ایک طاقتور اور مغرور قوم تھی اور یہ قوم پھاڑوں سے اپنے ھاتھوں سے مکانات بناتی تھی۔ قوم ثمود کے لوگ ایک بڑے بت کی یا ایک پھاڑ کی پوجا کرتی تھی۔ اس پر حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو اللہ تعالی کی عبادت کا کھا تھا لیکن یہ قوم اپنے تکبر مغرور پر انکار کر بیٹھی۔
اس پر حضرت صالح علیہ السلام کھنے لگے کہ بس تم تین دن کے بعد اللہ کے عذاب سے تباہ برباد ھوجاؤگے تین دن کے گزرنے کے بعد اللہ کے عذاب نے ان کو تباہ براباد گیا۔
نوٹ: یھاں پر ھم نے قوم ثمود کی مختصر وضاعت لیکھی ہے باقی آپ انٹرنیٹ سے سرچ کر کے تفضیل دیکھ سکھتے ہیں۔
اس کے بعد ان ظالموں نے اونٹنی کو قتل کیا جس پر حضرت صالح نے اپنی قوم کو اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرا کر فرمایا کہ بس ابھی اللہ تعالی کے عذاب کا انتظار کرو۔ لیکن اس بات پر قوم نے حضرت صالح علیہ السلام کا مذاق اوڑایا اور کھنے لگے اگرھم پر اللہ کا عذاب آئیگا تو کب آئیگا۔
قوم ِثمود کی جائے پیدائش
قدیم جزیرۃ العرب کے شمال مغربی علاقے میں واقع،’’ وادی القریٰ‘‘ اپنی ہریالی و شادابی میں بے مثال ہے۔ اس وادی پر قومِ ثمود کی حکم رانی تھی، جب کہ اس کے مدّ ِمقابل، جنوب مشرقی عرب پر قومِ عاد قابض تھی۔ قومِ ثمود بھی قومِ عاد کی طرح نہایت طاقت وَر، طویل القامت اور زبردست شان و شوکت کی مالک تھی اور اسے فنِ تعمیر میں بھی کمال حاصل تھا۔ پہاڑوں کو تراش کر انتہائی خُوب صورت عمارتیں بنانے کا فن گویا اُن پر ختم تھا۔ اس قوم کے دارالحکومت کا نام، حجر تھا، جو حجازِ مقدّس سے شام جانے والے قدیم راستے پر واقع تھا۔ اب یہ علاقہ ’’مدائنِ صالح‘‘ کہلاتا ہے۔ مدائنِ صالح کے قدیم شہروں میں ایک ’’العلا‘‘ ہے، جو آج بھی بہت پُررونق اور آباد ہے۔ مدینہ منورہ سے تبوک جاتے ہوئے بڑی شاہ راہ پر تقریباً ساڑھے چار سو کلومیٹر کی مسافت پر یہ شہر واقع ہے۔وادیٔ ثمود، اِک جائے عبرتالعلا شہر ہی سے وادیٔ ثمود میں داخلے کا راستہ ہے۔ سعودی حکومت نے وادیٔ ثمود کی تاریخی حیثیت کے پیشِ نظر 1972ء میں اسے سیّاحوں کے لیے کھول دیا تھا۔ یہاں کے ریلوے اسٹیشن کا نام بھی مدائنِ صالح اسٹیشن رکھا گیا ہے۔تاہم، وادی میں داخلے کے لیے محکمۂ سیّاحت سے اجازت نامہ لینا ضروری ہے۔ یہ لق ودق میدان، چٹیل بیابان18سے20مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، جہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے پر وہ خُوب صورت تاریخی عمارات ہیں، جنہیں قومِ ثمود نے سخت سُرخ چٹانیں تراش کر بنایا تھا۔ دوسری جانب، نرم میدانی علاقوں میں عالی شان مکانات کے کھنڈرات ہیں۔ ایک ہزار سال قبلِ مسیح کے ان فن پاروں کو دیکھ کر آج کے جدید، ترقّی یافتہ انسان اور ماہرِ تعمیرات حیران رہ جاتے ہیں۔ سُرخ پہاڑوں کے اندر اس شہرِ خموشاں کی ہزاروں تاریخی عمارتوں کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ اُس زمانے میں بھی اس شہر کی آبادی چار یا پانچ لاکھ سے کم نہ ہو گی، جسے ان کی بداعمالیوں اور نافرمانیوں کے سبب ایک زوردار، تیز اور ہول ناک آواز کے ذریعے آناً فآناً ہلاک کر دیا گیا۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا) جو وادی (قریٰ) میں پتھر تراشتے (اور گھر بناتے) تھے۔‘‘ (سورۂ الفجر9:)۔ 2008ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے، یونیسکو نے اسے سعودی عرب کا پہلا عالمی وَرثہ قرار دیا۔حضرت صالح ؑمنصبِ نبوّت پرقومِ ثمود اپنے عالی شان محلّات، سرسبز و شاداب کھیت کھلیان، خُوب صورت مرغزاروں اور نعمتوں کی فراوانی کے سبب غرور، تکبّر اور سرکشی کے نشے میں چُور تھے اور چوں کہ تکبّر اور کفر کا چولی دامن کا ساتھ ہے، تو یہ بھی ابلیس کے پیروکار بن گئے، حالاں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے قومِ عاد پر قہرِ الٰہی کے مناظر اُن کے سامنے تھے۔ یہ بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے خدائوں کی عبادت کرتے تھے۔
ان کے معاشرے سے حق و انصاف ناپید ہو چُکا تھا۔ بے حیائی، فحاشی آخری حدود چُھو رہی تھی۔ مقدّس انسانی رشتوں کا احترام ختم ہو چُکا تھا۔ رقص و سرود، عیش و عشرت، شراب و شباب اُن کی زندگیوں کے لازمی جز بن چُکے تھے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے اُس قوم ہی میں سے ایک خدا ترس اور بہت نیک انسان، حضرت صالح علیہ السّلام کو نبوّت کے منصب پر فائز فرمایا۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور ہم نے (قومِ) ثمود کی طرف اُن کے بھائی صالح ؑکو بھیجا۔‘‘ (سورۂ اعراف73:)۔دیگر نبیوں کی طرح حضرت صالح علیہ السّلام نے بھی اپنی قوم کو راہِ راست پر لانے کی بہت کوشش کی۔ وہ دن رات اُنھیں سمجھاتے رہے کہ ’’اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اسی نے تم کو پیدا کیا اور آباد کیا، تو اس سے مغفرت مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو۔ بے شک میرا پروردگار نزدیک (بھی ہے اور دُعا کا) قبول کرنے والا (بھی) ہے۔‘‘ (سورۂ ہود61:)۔ اس پر قوم اُن کے خلاف ہو گئی اور یوں گویا ہوئی’’اُنہوں نے کہا اے صالح ؑ! اس سے پہلے ہم تم سے (کئی طرح کی) اُمیدیں رکھتے تھے (اب وہ منقطع ہو گئیں) کیا تم ہم کو ان چیزوں سے منع کرتے ہو، جن کو ہمارے بزرگ پوجتے چلے آئے ہیں اور جس بات کی طرف تم ہم کو بلاتے ہو، اس میں ہمیں قوی شبہ ہے۔‘‘ (سورۂ ہود