حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دینی خدمات
حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی دینی خدمات میں سے قربانی کا واقعہ بڑا ہی پر کیف ہیں قربانی کا واقعہ کچھ یوں ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک شام میں خواب دیکھا۔
وہ یہ کہ خواب میں کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ ابراہیم اپنی نذر کو پورا کرو،اللہ تعالی تم حکم دے رہا ہے کہ تم اپنے بیٹے کو ذبح کرو
یہ خواب ذوالحج کی آٹھ تاریخ کو دیکھا جب صبح ہوئی تو سوچنے لگے کہ یہ کیا خواب ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ہے یا شیطان کی طرف سے اس لیے آٹھ ذوالحجہ کو یوم الترویہ یعنی سوچ کا دن کہا جاتا ہے۔
پھر جب 9 ذوالحج کی رات ہوئی تو پھر وہی خواب نظر آیا۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے سمجھ لیا کہ یہ خواب اللہ ہی کہ طرف سے ہے۔ اس لیے اس کو یوم العرفہ یعنی پہچاننے والا دن کہا جاتا ہے۔
پھر 10 ذوالحج کی رات میں بھی یہی خواب دیکھا، اور یہ ارادہ کرلیا کہ اپنے لخت جگر کو اللہ کے راستے میں قربان کر ہی دوں گا۔
اس لئے دس ذوالحجہ کو یوم النحر یعنی کی قربانی کا دن کہا جاتا ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ آپ اس حکم کو پورا کرتے آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ کیا اور اس سلسلے میں ان کی رائے لی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا جواب
اس پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جو جواب دیا بیشک یہ شان نبوۃ کا مظہر اور ایک واضح نبوت کی روشنی علامت ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جواب کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ ابو جان آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے کر گزریں، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ {سورۃ صفاۃ 102 }
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جس وقت یہ جواب دیا تھا اس وقت آپ کی عمر صرف 13 برس کی تھی اللہ اکبر اس چھوٹی سی عمر میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ایسا جواب دینا آپ کی سلامتی طبع کی بین دلیل ہے۔
غور و فکر کرنے کا مقام
ہمیں اس بات پر غور وفکر کرنا چاہیے کہ اگر اللہ کا حکم ہمارے سامنے آئے، تو کیا ہم اسی طرح رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی قربانی پیش کرتے ہیں؟
جانور کی قربانی تو ہم بھی کرتے ہیں مگر جب تک اس کے اندر یہ جذبہ کار فرما نہ ہو وہ حقیقی معنوں میں قربانی کہاں؟
غرض یہ کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی محبت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اسی طرح ہم کو بھی چاہیے کہ ہم بھی اس خالق حقیقی محبت میں ہمہ وقت اس کے احکام کی اطاعت کے لئے تیار رہیں۔
حضرت ابراہیم کی سیرت
حضرت ابراہیم علیہ السلام جو اللہ کے برگزیدہ نبی اور پیغمبر ہیں جن کو خلیل اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کا دوست کہا جاتا ہے،
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کہاں پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم کی تاریخ پیدائش تقریبا آپ چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے تین بڑے مذاہبِ یعنی اسلام عیسائیت اور یہودیت کے عظیم پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔
عیسائی اور یہودی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا امام مانتے ہیں۔ مذہب اسلام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام قرآن کے کل کتنے پاروں میں آیا ہے؟ تو قرآن کریم کے 14 پاروں سورۃ ابراہیم انہی سے موسوم ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کئی جگہوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت اور احوال بیان فرمائے ہیں۔
حضرت ابراہیم کا لقب کیا تھا؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے القاب بہت ہے یہاں چند ذکر کئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کا لقب امت اور امام الناس کے لقب سے پکارا ہے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کئی مرتبہ حنیف بھی کہا ہے۔
قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مسلم بھی کہا گیا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سارے ایسے انبیاء کرام کا تذکرہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر کہ مطابق ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات تب ہوئی جب آپ کی عمر 175 برس کی تھی۔
اور وہ حبرون میں مکفیلہ کے غار میں دفن ہوئے ابھی اس مقام کو خلیل کہتے ہیں جو بیت المقدس کے قریب واقع ہے۔
حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی
مہمان نوازی ایمان کی علامت ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا تذکرہ فرمایا ہے۔
کہ حضرت ابراہیم علیہ سے ملاقات کرنے کے لئے اجنبی فرشتے انسانوں کی شکل میں ان کے پاس آ پہنچے۔
حضرت ابراہیم علیہ سلام نے ان سے تعارف حاصل کرنے سے پہلے ان کی مہمان نوازی میں فورا ایک موٹا تازہ بچھڑا ذبح کیا اور اس کا لذیذ اور مرغن گوشت تیار کرکے ان کی خدمت میں پیش کی۔
کیا حضرت ابراہیم کے والد کافر تھے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کافر نہیں بلکہ مومن اور جنتی تھے اور قرآن میں ابیہ کا جو لفظ آیا ہے در اصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا آذر کے لیے استعمال ہوا ہے اور عربی میں چچا کے لیے بھی ابیہ کا لفظ استعمال ہوجاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد محترم کا نام حضرت تارخ علیہ السلام تھا۔ اور حضرت ابراہیم کی والدہ کا نام حیلہ تھا۔
البداية والنهاية، جلد اول، ص 141
السيرة النبوية، ص 9:
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے آباؤ اجدا میں کوئی کبھی بھی برائی پر جمع نہیں ہوا۔
اللہ تعالی مجھے ہمیشہ پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل فرماتا رہا پاک اور صاف فرماکر جہاں کہیں بھی دو شاخیں پھوٹیں وہاں اللہ تعالی نے مجھے اس شاخ میں منتقل کیا جو سب سے بہتر ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کافر نہیں بلکہ مؤمن تھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گزشتہ حدیث مبارکہ بھی اس متعلق دلالت کرتی ہے۔
(السیرۃ النبویہ لابن کثیر جز۱ ص۶۹۱۔مختصر تاریخ دمشق جز۱ ص۰۲۱،البدایۃ والنھایۃ جز2
حضرت ابراہیم کا قصہ
نمرود کے آگ سے 40 دن کے بعد آپ علیہ السلام سلام باہر آئے تو شہر جو خزائن الوجہ کہلاتا ہے۔
آپ علیہ السلام نے اس شہر میں پہنچنے کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ہزاروں آدمی خوبصورت لباس پہن کر ایک عظیم الشان جگھ کی طرف چلے جارہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دیکھ کر لوگوں سے پوچھا تم کہاں جارہے ہو۔
انہوں نے کہا یہاں ایک بادشاہ کی ایک خوبصورت شہزادی ہے اور وہ صاحب جمال ہے اور خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اس جیسا آج سارے عالم میں کوئی نہیں ۔
ہر ملک کے بادشاہ اور شہزادے اس کی طلبگار ہیں۔ وہ شہزادی کسی کو قبول نہیں کرتی۔کہتی ہے کہ میں اپنی پسند کی شادی کروں گی۔ آج تقریباً 7 دن ہورہے ہیں لوگ برابر وہاں جاتے ہیں ۔
اس کا طریق عمل یہ ہے کہ جب سب جمع ہوجاتے ہیں تو وہ شہزادی خود نکل کر دیکھتی ہے لیکن پسند کوئی نہیں کرتی۔
یہ بات جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سنی تو انہی لوگوں کے ساتھ ہولیے اور اسی میدان کے ایک گوشہ میں جا بیٹھے ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچی دیکھا کہ ایک نور اُن کی پیشانی پر چمکتا ہے ۔وہ شہزادی اس نور کو دیکھ کران کے حسن وجمال پر عاشق ہوگئی۔۔
اس کے بعد بادشاہِ وقت کے لوگ حضرت ابراہیم السلام کو بادشاہ کے پاس لے گئے۔درحقیقت وہ نور جس پر شہزادی عاشق ہوئی وہ نور محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشانی پر ظاہر ہوا تھا۔
بادشاہ نے اسے دیکھ کر اپنی بیٹی کی طرف نگاہ کی اور کہا :اے بیٹی! نیک شوہر تو نے پایا مگر مرد غریب ہے ،کچھ فائدہ نہیں۔
سب امراء نے مل کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اس کی شادی کردی اور تمام رسومات بادشاہ نے ادا کیں اور سارے شہر میں خوشی و خرمی ہوئی ( قصص الانبیاء )۔
یہ بھی بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مانند سائرہ خاتون اور ھاجرہ علیہم السلام کے نہ کوئی حسن وجمال میں برا بر ہوا ہے نہ ہوگا۔
شادی کے چند ماہ بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مصر کی طرف جانے کا قصد کیا۔سائرہ خاتون نے کہا میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی اور بغیر تمہارے میری زندگی محال ہے۔
لہذا مجھ کوبھی اپنے ہمراہ لے چلو۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تمہارا باپ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ سائرہ خاتون بولیں میرے باپ کی قدر تمہارے وجود کے سامنے میرے نزدیک کچھ بھی نہیں ۔
اگر چھوڑے گا تو فبہا وگرنہ بے حکم اس کے تمہارے ساتھ چلوں گی کیونکہ تمہارے بغیر میری زندگی محال اور وبال ہے۔
پھر سائرہ خاتون نے اپنے باپ سے رخصت مانگی ،اس نے ان کو اجازت دیدی۔تب حضرت ابراہیم علیہ السلام سائرہ خاتون کولے کر شہر سے نکلے اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی تھا۔
راستے میں کچھ لوگوں نے کہا :اے حضرت ابراہیم علیہ السلام! مصر کا بادشاہ بہت ظالم ہے اور وہ عورتوں کی خواہش بہت رکھتا ہے اور بالخصوص عروسِ نو کا بہت زیادہ شائق ہے۔
اور بہت جلد اس کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔اس کے طرف سے راستے پر 10,10 آدمی مقرر رہتے ہیں جو کوئی مال واسباب مصر لے جاتا ہے۔
تواس کو پکڑ اس سے اس کا مال حاصل کر لیتے ہے اور اگر کوئی سوداگر عورت کو ساتھ لے جاتاہے۔
تو وہ اس عورت کواس سے چھین لیتے ہیں۔یہاں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری شادی کی ابتداء ہورہی ہے۔
یہ سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اندیشہ کرنے لگے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ناموس میں بزرگ تھے اور سائرہ خاتون کے برابر حسینہ سارے جہان میں کوئی عورت نہ تھی۔
اس راہ کے سوا جانے کے واسطے کوئی دوسری راہ بھی نہ تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک صندوق بنا کر سائرہ خاتون کواس میں چھپا کر صندوق کو تالا لگا دیا اور صندوق کو اونٹ پر رکھ دیا۔
جب شہر میں جا پہنچے تو محصول والے آ کر صندوق کھولنے لگے تاکہ اس کی جنس دیکھ کر اس کے موافق اس کا محصول لیا جائے ۔
اس پرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا صندوق مت کھولو ۔اس کا جو عوض بناتا ہے میں ادا کر دونگا ۔اگر تم یہ چاہو تو صندوق کے وزن کے برابر سونا چاندی بھی لو تو بھی تم کو دیدی جائے گی۔
یہ سن کر اور بھی زیادہ اشتیاق ہوا کہ نہ معلوم اس میں کیا چیز ہے ۔ضرور کھولنا چاہیے چنانچہ انہوں نے بلاصرار اس صندوق کو کھولا تو دیکھتے کیا ہیں۔
کہ ایک عورت صاحبہ جمال وحسن سے چودہویں چاند کی طرح آ اس میں بیٹھی ہے۔جس کی مثال اگر تلاش بھی کیاجائے تو ملنا ناممکن ہے۔
جب محصول والے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سائرہ خاتون کو بادشاہ کے نزدیک لے گئے تو بادشاہ ملعون نے پوچھا یہ عورت تمہاری ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ کو جواب دیا جو اسلامی جواب تھا۔آپ علیہ السلام نے فرمایا: یہ میری بہن ہے۔
بیوی کو بہن کہنا(سابقہ شریعت میں ) درست تھا۔یہ جواب سن کراس ملعون نے کہا تم اپنی بہن کو مجھے دے دو۔
تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا وہ اپنی ذات کی مالکہ ہے۔سائرہ خاتون نے کہا پناہ مانگتی ہوں میں اللہ تعالیٰ سے ۔
حضرت ابراہیم کے معجزے
( حضرت ابراہیم کے معجزے کی ابتداء)
وہ ملعون یہ سن کر ہنسا اور حکم کیاکہ ان کو حمام میں لے جاو اور نہلا دھلا کر اور لباس فاخرہ پہنا کر خوشبو سے معطر کر کے میرے پاس لاو۔
ملعون کے حکم پر ایسا ہی کیا گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا کہ پردہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں سے اٹھائے۔
تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ تمام گفتگو جو ملعون حضرت سائرہ خاتون کے ساتھ کرے سن سکیں اوران کے تمام حالات آنکھوں سے دیکھیں ۔
جب جمال مبارک حضرت سائرہ خاتون کااس ملعون نے دیکھا تو فوراً اس نے دست درازی کا قصد کیا۔اسی وقت اس کا ہاتھ شل اور خشک ہوگیا۔
پھر اس نے چاہا کہ بے ادبی کرے، تب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ظالم بادشاہ کو زمین میں دھنسا یا گیا۔ جب اس کا کوئی بس نہ چل سکا تو کہنے لگا کہ یہ عورت تو جادو گر ہے۔
حضرت سائرہ خاتون نے اس ملعون سے کہا: اے بدبخت میں جادوگر نہیں ہوں لیکن خاوند میرا اللہ ربّ العزت کا دوست ہے جوسب کی نگہبانی کرنے والا ہے اورخداوند کریم کی دربار میں دعا کرتا ہے تاکہ تو میری بے عزت نہ کرسکے ۔
یہ سن کراس نے توبہ کی۔فی الفور ہاتھ اس کا درست ہوگیا۔زمین نے بھی اس کو چھوڑ دیا۔پھر جب دوسری مرتبہ سائرہ خاتون کی طرف نگاہِ بد سے دیکھا تواسی وقت اندھا ہوگیا۔
تب اس ملعون نے کہا: اے بی بی معصوم! میرے حال پر دعا کرو اور میں اس کام سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرتا ہوں۔
جب سائرہ خاتون نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی آنکھیں اچھی ہوگئیں پھر جب حالات ٹھیک ہوگئے ۔
پھر عہد شکنی چاہی کہ حضرت سائرہ خاتون پر دست دراز کرے تو اس وقت تمام بدن اس کا خشک اور شل ہوگیا اور پھر آنکھیں جاتی رہیں۔
پھر کہنے لگا: اے بی بی پاک دامن! میرے واسطے اپنے خداسے دعا کیجئے۔ حضرت سائرہ خاتون بولیں: اے بدبخت یہ دعا میری نہیں بلکہ میرے شوہر جو میرے ساتھ ہیں ان کی دعا ہے،
جو خداوند کریم کے دوست ہیں۔اگر وہ چاہیں تو تجھے معاف کریں یانہ کریں ۔ تب اس نے کہاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہاں لاو۔
حضرت ابراہیم کی دعا کا پس منظر
اس کے بلانے پرجب حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں تشریف لے گئے تواس ملعون نے کہا: اے ابراہیم علیہ السلام! مجھے معاف کیجئے۔
میں نے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے اور میں ابھی پکی توبۃ کرتا ہوں ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بادشاہ سے کہا یہ میرے حکم سے نہیں ۔یہ سب خداوند قدوس کے حکم سے ہوتا ہے جو تمام جہان کا رب ومالک ہے۔
دیکھو خدا کی مرضی کیا ہے اسی کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا۔اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر فرمایا کہ اے ابراہیم
خدائے تعالیٰ نے تمہیں سلام کہا اور فرمایا ہے کہ جب تک یہ تمام ملک اور خزانہ تم کونہ دے تم ہرگز اس سے راضی نہ ہونا۔
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بادشاہ سے یہ بات کہی کہ میرا رب ایسا فرماتا ہے ۔بادشاہ نے یہ باتیں سنتے ہی تمام سلطنت اور اپنا خزانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیے دیا۔
یہ کیفیت ہونے پرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بادشاہ کے حال پر دعا کی۔ اس نے دعا کی برکت سے صحت وتندرستی پائی ۔
روایت میں ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مملکت کے۔ 2حصے کر کے جو جانب کنعان تھا وہ آپ علیہ السلام نے خود رکھ لیا اور باقی جو بچا اسی کو واپس کردیا۔
حضرت ہاجرہ کا واقعہ
بادشاہ نے ایک صاحب زادی دوشیزہ نیک رو خوبصورت صاحبہ جمال لاکر حضرت سائرہ خاتون سے کہا۔
اے نیک بخت بی بی! میںنے تمہاری بے حرمتی کی کوشش کی اور میں نے تم کو دیکھ کر اندیشہ بد کیا۔
تمہارے عفو معاف کے شکرانہ میں یہ بی بی ہاجرہ تم ہی کو دیتا ہوں اور جو گناہ و تقصیریں مجھ سے ہوئیں معاف کیجئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سائرہ خاتون اور بیبی ہاجرہ کولے کر کنعان کو چلے۔راستہ میں حضرت سائرہ خاتون اپنا حال جو بادشاہ کے ہاں گزرا تھا وہ بیان کرنے لگیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا :اے سائرہ خاتون! تم خاطر جمع رکھو۔اب کچھ اندیشہ مت کرو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے میری آنکھوں کے سامنے پردۂ غیب اٹھادیا۔
جو جو باتیں تجھ پر گزرتی تھیں مجھ پرسب ظاہر ہوجاتی تھیں اور جو تم کرتی اور کہتی تھیں سو وہ میں دیکھتا اور برابر سنتا تھا۔
بعد اس کے حضرت سائرہ خاتون نے بی بی ہاجرہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں دے دیا۔
حضرت ابراہیم کی بیویاں
مصر سے نکلے ہوئے 10 سال کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن حضرت سارہ اولاد کی نعمت سے اب تک محروم رہیں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اولاد دینے کا وعدہ فرمایا تھا۔ حضرت سائرہ خاتون نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ مجھے تو اولاد کی طرف سے ناامیدی ہوچکی ہے ۔
آپ ہاجرہ سے عقد کر لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد دینے کا وعدہ فرمایا ہے تو شاید اسی سے کوئی اولاد ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سائرہ خاتون کی خواہش کے موافق حضرت بی بی ہاجرہ سے عقد کرلیا۔
اللہ تعالیٰ کی شان کہ ایک سال بعد ہی ان کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے(کتاب ازواج الانبیاء )۔
حضرت سائرہ خاتون کی وفات کی تھوڑی مدت کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک اور عورت کواپنے نکاح میں لائے جس کانام قطورا یا قنطورا تھا جس کے بطن سے6 لڑکے پیدا ہوئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک اور عورت سے بھی نکاح کیا جس کانام حجورا تھا۔کتابِ مذکور میں اس بیوی کانام حجون یا حجین بھی لکھا گیا ہے۔اس کے بطن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے7 بیٹے پیدا ہوئے(کتاب ازواج الانبیاء )۔
غور وفکر کرنے کا مقام
اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ نکاح کرنا کتنا ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سائرہ خاتون، حضرت بی بی ہاجرہ،
حضرت قطورا یا قنطورا اور حجورا سے نکاح کیا۔شادی کرنا تو انبیاء علیہم السلام کی سنت بھی ہے۔
اس مقدس عمل کو ہم نے اپنی ساکھ بچانے، ناک اونچی کرنے اور معاشرے میں اپنا وقار بنانے کے چکر میں زیادہ سے زیادہ اخراجات اور فضول رسومات سے مشکل بنادیا ہے۔
اخراجات کم سے کم کریں اور رسومات ختم کر کے سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق شادیاں کریں تو شادیاں آسان بھی ہوجائیں گی، گھر میں برکت بھی رہے گی اور گھر اجڑنے سے بھی محفوظ رہیں گے۔