بارگاہ رسالت کے آداب

بارگاہ رسالت کے آداب کیا ہیں؟او روضہ رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی بارگاہ میں کیسے حاضری دیے؟اور روضہ رسول کریم ﷺ کی عظمت اور مصطفیٰ کریم ﷺ کا آداب کیو ضروری ہے؟

دوستوں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ہمارا ایمان اور عقیدہ ‌ ہے کہ جب تک ہمارے دلوں میں حضور کی محبت اپنی جان و مال اپنی اولاد حتیٰ کہ  اپنے والدین سے بھی کہی زیادہ نہ ہو تو ہمارہ ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔

اور اس طرح اگر ہمارے دلوں میں روضہ رسول للہﷺ   کا ادب نہ ہو تو ہمارا ایمان بہی کامل نہیں ہو سکھتا۔ہمیں چاہیے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کا ادب اسطرح کریں جیسے صحابہ کرام نے کی۔

بارگاہ رسالت کے آداب
رسول اللہ ﷺ کے آداب

 

:بارگاہ رسالت کے آداب

بارگاہ رسالت کے آداب ہمارے لیے فریضہ ہیں جیسے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)

  ترجمہ اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سنتا اور جانتا ہے۔

:شان نزول

ابن المنذر نے حسن کا بیان نقل کیا ہے کہ قربانی کے دن کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے قربانی کر دی تو حضور علیہ السلام نے حکم دیا  کہ دوبارہ قربانی کریں اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی اللہ تعالی کی بے ادبی ہے جن لوگوں نے پیش قدمی کی انہوں نے بظاہر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش قدمی کی تھی۔

مگر حکم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ السلام کے کسی بھی قول یا فعل میں پیش قدمی کرنا خلاف ادب ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔

جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہے اللہ تعالی کو بھی نہ پسند ہے اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین کو

اگر کسی چیز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناپسندیدگی چیز معلوم ہو جاتے تو وہ فوراً اپنے سے دور کر دیتے۔

See also  حضور نبی اکرم ﷺ کا ایک جنتی شخص کے بارے میں بشارت دینا -

ناپسند لباس

حضرت عبداللہ ابن عمرو عمر ابن عاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور میں نے گلابی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا؟ میں پہچان گیا کہ حضور ﷺ نے ناپسند فرمایا ہے میں چلا اور انہیں جلا دیا۔

فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‏ ما صنعت بثوبک قلت احرقتہ۔

ترجمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اپنے کپڑے کا کیا کیا؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ میں نے اسے جلا دیا۔

یہ صحاب اکرام رضی اللہ تعالی عنہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ کہ جس کپڑے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوں۔ وہ اپنے گھر میں رکھنا پسند نہ کیا۔

یہی اصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔  کیونکہ وہ جانتے تھے۔کہ

بنا تیری محبت دے عبادت رائیگاں ساری

بنا تیرے جہاں بر باد سارا یا رسول اللہ

آداب نبوی سورہ حجرات کی روشنی میں

سورۃ حجرات کی روشنی میں آدا ِب رسالت صلى الله عليه وسلم پر مضمون۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)

ترجمہ۔

 ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو غیب بتانے والے نبی کی آواز سے اور ان  کے حضور بات چلا کر نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر ہی نہ ہو۔

 یعنی جب بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ عرض کرو تو ادب آہستہ آواز میں کرو دربارے رسالت کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھو۔

انہیں ایسے نہ بلاٶ جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر پکارتے ہو بلکہ کلمات ادب تعظیم اور تکریم اور القاب عظمت کے ساتھ عرض کرو اس لیے کہ ادب کے جانے سے نیکی برباد ہونے کا خطرہ ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اہل ایمان کو دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کا حکم دیا ہے۔

کہ اے ایمان والوں میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز سے گفتگو  نہ کرنا۔ تمہاری آواز نبی کریم ﷺ کی آواز سے اونچی نہ ہونے پائے۔

See also  حسن اخلاق قران و احادیث کی روشنی میں

انتہائی ادب و احترام اور تعظیم و تکریم کا لحاظ رکھنا۔یاد رکھنا  کہ اگر تھوڑی سی بے ادبی ہوگٸی تو اعمال ضاٸع ہوجاٸیں گے۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کریم ﷺ کی یہ تعظیم وتقیر آپ کی حیات ظاہری اور وصال کے بعد دونوں برابر ہیں۔

تعظیم رسول سے کیا مراد ہے؟

ابو محمد مکی رحمة اللہ فرماتے ہیں۔

ای لاتسابقوہ بالکلام ولا تنقوہ ولاتنادوہ باسمہ ندإ بعضکم لبعض ولٰکن عظموہ ووقروہ وناداہ باشرافٍ مایحب ان ینادیٰ بہ یارسول اللہ یانبی اللہ۔

ترجمہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم سے مراد یہ  ہیکہ ہم اپنے کلام میں حضورﷺ کا ادب اس طرح کریں کہ آپﷺسے سبقت ہرگز نا کریں۔اور آپﷺ سے کلام کرتے ہوٸے سختی سے بات نہ کریں۔

اور آپ ﷺ کا نام لیکر نہ پکارو جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔بلکہ تعظیم مصطفیﷺمیں آپﷺ کو ان ناموں سے پکارو۔

جن سے رسول کریم ﷺ کی شان بلند ہو۔ جن ناموں کو آپ ﷺ پسند فرماٸیں اور یو عرض کرو یارسول اللہ یانبی اللہﷺ۔،

صحابہ کرام کا ادب مصطفی

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی  عنہ حضور نبی کریمﷺ بارگآہ میں آٸے تو۔

فسمع عاٸشة عالیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بلند آواز سے بولنے کی آواز سنی تو فورن تمانچہ اٹھایا۔

اداب نبوی ﷺ خاطر فرمانے لگے وقال الا اراک ترفعین صوتک علیٰ رسولاللہ ﷺ اور خبردار آٸندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند نہ ہونے پائے آئے۔

صحابہ کرام اور بارگاہ رسالت کے آداب

 حضرت ساٸب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ کسی نے مجھے کنکر ماری۔

میں نے ادھر دیکھا تو وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ تھے انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا یہ جو آدمی بول رہے ہیں۔

انہیں میرے پاس لاؤ۔ میں ان دونوں کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لایا۔ توآپ نے ان دونوں سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟

انہوں نے کہا ہم طائف کے رہنے والے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے فرمایا اگر تم اس شہر مدینہ منورہ کے رہنے والے ہوتے،

تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا  تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اونچی آواز سے بولتے ہو۔

See also  حسن اخلاق قران و احادیث کی روشنی میں
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ادب

حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے تعظیم مصطفیٰ ﷺ میں  اپنے دونوں مکان مدینہ منورہ سے باہر مناصہ کے مقام پر تیار کروائے،

 تاکہ ان پر کام کرنے سے اوزاروں کی آواز مسجد میں نہ جائے اور اس سے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کو اذیت نہ پہنچے۔

ادب کے متعلق احادیث

اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت و نعمت سے نوازا ہے جو پورے دین کا جامع  اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔

وہ نعمت اور دولت اخلاق  آداب ہے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلی معیار پر تھے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نامہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کسی نے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے  اخلاق کے متعلق کوئی چیز بتائے۔

جس پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں  کہ آپ کا اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہر قول و فعل سے ثابت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے۔

بس جس نے جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر اپنے خیالات کو بہتر بنایا اسی قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا۔

صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے کہ۔ ان خیارکم احسن منکم اخلاقاً ۔ترجمہ تم میں سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔

تحبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی

 تحبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلامی تعلیمات کا اثر یہ ہے کہ جس آدمی کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق محبت اس درجہ تک  ہو۔

کہ اپنے والدین اور اولاد سے اور دنیا کی ہر چیز سے زیادہ خدا کے بعد صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو سمجھتا ہوں۔

اسلام اور شارع اسلام کا یہی تقاضہ ہے اور چودہ  سال سے امت محمدیہ کا حصول میں دو رائے نہیں ہوئے اور مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے باوجود اس سلسلے میں کوئی تبدیلی نہیں۔

کوئی تاویل کوئی نرمی کوئی  چشم پوشی کوئی مدافعت نہیں برتی گئی۔ اسلام کی  بنیاد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہری عقیدت اور بے پناہ محبت پر رکھی گئی ہے۔

اسلام میں جو شخص تحبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جتنا غرق ہوگا وہ اسی قدر برگزیدہ اور ولی کہلائے گا۔

امام مالک کا ادب رسول

 

قرآن حکیم کی روشنی میں سنت کی اہمیت

تعظیم رسول سے کیا مراد ہے۔

عظمت رسول قرآن کی روشنی میں

حضور کے معمولات